غزل
آئینے جب سے عزادار ہُوئے جاتے ہیں
ہم ترے عشق میں سرشار ہُوئے جاتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے کہ اِن تیری حسیں آنکھوں کے
سبھی خوابوں کے خریدار ہُوئے جاتے ہیں
کوئی تو زخم لگاؤ کہ مرا کام بنے
اشک آنکھوں میں ہی بے کار ہُوئے جاتے ہیں
آپ تو آپ ہیں ، اوقات پتا ہے ہم کو
آپ بھی صاحبِ کردار ہُوئے جاتے ہیں
ہم پہ واجب ہے کہ اب کھیل کی پَرتیں کھولیں
کل کے بچّے بھی تو فنکار ہُوئے جاتے ہیں
حمزہؔ شفیق
No comments:
Post a Comment