غزل
کیا تِیر گی ہے کہ دسترس میں یہ زندگی نہیں آ رہی
کیا سادگی ہے مری سمجھ میں جو سادگی نہیں آ رہی
تُو بتا کہ میرے مرض کا کیا ہے علاج میرے طبیبِ عشق
تُو بتا کہ میری تو شدّتوں میں بھی کچھ کمی نہیں آ رہی
مرے ہم سفر! مجھے یہ پتا ہے تُو چھوڑ جائے گا ایک دن
جہاں ہم ملے تھے یہ زندگی، وہاں واپسی نہیں آ رہی
وہ جُدا ہُوا تو نہیں رہا، مرے پاس کوئی بھی تازہ فن
کہ جو نغمگی تھی نہیں رہی، مجھے شاعری نہیں آ رہی
حمزہؔ شفیق
No comments:
Post a Comment