تیرا چاند
دیکھو! تیرے چاند میں
دڑاڑ آ چکے ہیں جب
یہ اپنی بدصُورتی کو بادِلوں میں چھپاتا ہے!
یہ خود کو کسی آئینے میں، دیکھنے سے بھی قاصر ہے
آخر یہ بادل بھی
کب تک اِسے چھپائیں گے؟
بادل کب تک ساتھ دیں؟
یہ روز کہاں آتے ہیں!
آخر چاند بھی کب تک؟ اَوٹ ڈھونڈتا رہے
اِسے روز نکلنا ہے
سرِ عام دِکھنا ہے
بس اب ایک ہی حل ہے
یہ چاند روز دُعا کرے کہ اے خدا!
مجھے تُو خوبصورت کر!
بس اتنا ٹھیک ہو جاؤں کہ دیکھ سکُوں
میں اپنا عکس، دیر تک!
کسی آئینے میں
حمزہؔ شفیق
No comments:
Post a Comment